Saturday, August 29, 2015

متحدہ اور سندھ

راجا داہر کے بعد سندھ میں کبھی بھی لوکلز کی حکومت نہیں رہی ماسوائے چند سوسال کلہوڑوں کے، ان حکمرانوں نے بعد میں سندھ کو اپنا دیس مان کر یہاں کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا آنے والوں کے خلاف جنگیں بھی لڑیں۔ آزادی کے بعد بھی سندھ نے ان کے پاس ہی رہا بھلے وہ شاھ ہوں جونیجو بھٹو ہوں چانڈیو، سومرو وسان سب مختلف ادوار میں سندھ میں آباد ہوئے, انہوں نے سندھ کو آباد کیا تو سندھ نے انہیں بھی جی میں جگہ دی۔ مگر اردو بولنے والوں نے سندھ کو اپنا گھر نہیں مانا یا ان کے دل میں یہ بات آ گئی کہ سندھ ہمارا گھر نہیں ہے ہمیں الگ گھر چاہئے ۔ تو سندھی یہ بات کیسے قبول کریں گے کے جنکو ہم نے رہنے کے لئے گھر دیا وہی اس گھر کے بٹوارے کی بات کر رہے ہیں۔ جب نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم متحدہ بنی اور اندرون سندھ میں اپنے یونٹ کھولے تو لگا کہ ایم کیو ایم اب قومی دھارا میں آنا چاہتی ہے مگر اس کا بار مہاجر کارڈ کھیلنا ابھی بھی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ کراچی اور حیدرآباد کی جماعت بن کر رہنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا نہیں چاہتی وہ رسک نہیں لینا چاہتی کہ کہیں وفاق کی سیاست میں وہ کراچی جیسے سونے کے انڈے دینی والی مرغی کو نا کھو دے، جو کے اس کی خام خیالی ہے۔

متحدہ کا انتظامی نظم اتنا مربوط اور مضبوط ہے کے اس کو دبایا تو جا سکتا ہے پر توڑا نہیں جا سکتا۔ صرف اسکو اپنا پرتشدد خول اتار کر سندھ کی بات کرنی ہوگی۔ سندھ کی عوام بڑی سادہ لوح ہے  متحدہ کو انکا دل جیتنا اتنا مشکل نا ہوگا۔ اگر خدمت خلق فاؤنڈیشن کے تحت اندورن سندھ کے مختلف شہروں میں کچھ فلاحی میڈیکل کیمپ لگائے جاٰئیں، "سندھ کے معدنیات پر پر سندھیوں کا حق" کی آواز وفاقی اور میڈیا کے مختلف فورم پر اٹھائی جائے۔ وفاق کی نوکریوں میں سندھ کے کوٹا کت تحت بھرتیاں کی جانے کی بات کی جائے، سندھ کے پانی، بجٹ میں ملنی والی رقم معدنیات کی رائلٹی سمیت بہت سے مسئلے ہیں جن کو اٹھا کر متحدہ سندھیوں کا دل جیت سکتی ہے اور سندھ میں پی پی پی کا نعم البدل بن سکتی ہے۔ مگر شاید متحدہ کراچی اور حیدرآباد کو چھوڑنا نہیں چاہتی یا پیپلزپارٹی کے ساتھ ادھر تم ادھر ہم کے تحت اپنے اپنے حلقہ میں خوش رہنا چاہتی ہے۔ مگر شاید یہ بات دونوں پارٹیاں (خاص طور پر پیپلز پارٹی) نہیں دیکھ رہی  کہ ان کی اندورن سندھ کی بے دھیانی اور عوام کی بے چینی کا فائدہ نان سیکولر قوتیں آسانی سے اٹھا رہی ہیں،

Friday, May 2, 2014

Jumma Mubarak

So far so good. This Friday appears to be Good-will-Friday. All the good news are pouring in: Bunked office no call from there, Home front is as good as it could be: Omens about travelling and adventures are on the edge of June. I hope that evening has more to offer.